Pages

Tuesday, August 15, 2006

Urdu Novel Allao By M.Mubin Part2

٭
دوسرا باب
اس دن سویرےجلدی آنکھ کھل گئی ۔چھ بجےکےقریب۔ چھ بجےوہ برش کرنےکےلیےاپنےمکان کی گیلری میں آکر کھڑا ہوگیا اسےمدھو کا انتظار تھا۔ برش کرنےکےبعد اس نےمنہ ہاتھ دھوئےساڑھےچھ بج گئےتھےلیکن مدھو نہیں آئی تو اسےبےچینی محسوس ہونےلگی۔ اب تک تو مدھو کو آجانا چاہیےتھا۔ ساڑھےچھ بجےتک وہ بس اسٹاپ پر آجاتی ہی۔ اس نےچائےبھی نہیں پی ۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا ۔اسےڈر تھا اگر وہ اندر چائےبنانےمیں لگ گیا تو مدھو بھی آجائےگی اور اس کی بس اور اس سےپہلےکہ وہ مدھو کی ایک جھلک دیکھےمدھو بس میں سوار ہوکر کالج چل دےگی۔ اس لیےان سےچائے،ناشتہ کا خیال دل سےنکال دیا تھا۔ گیلری میں کھڑا مدھو کا انتظار کرتا رہا۔جس بس سےمدھو کالج جاتی تھی وہ آئی چلی گئی۔ لیکن مدھو نہیں آئی ۔ اس کا دل ڈوبنےلگا۔ اس کا مطلب ہےآج مدھو کالج نہیں جائےگی ۔کیوں کالج نہیں جائےگی؟ وہ تو کبھی کالج جانےکا ناغہ نہیں کرتی ہے؟آ ج کالج نہیں جائےگی تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہوگی ۔وہ وجہ کیا ہوسکتی ہی؟سوچ کر بھی اس وجہ کو وہ تلاش نہیں کرپارہا تھا۔ بیمار ہی؟گھر میں مہمان آئےہیں؟یا کالج پڑھائی سےاس کا دل اکتا گیا ہی؟۔ جیسےکئی سوالات اس کےذہن میں چکرارہےتھی۔ ساڑھےسات بجےکےقریب مایوس ہوکر وہ اندر آگیا ۔اب مدھو کےآنےکی کوئی امید نہیں تھی۔ وہ چائےبنانےلگا ۔اسےپتہ نہیں تھا دس پندرہ منٹ میں رگھو اور راجو آجائیں گےتو نہ اسےچائےپینےملےگی اور نہ ہلکہ سا ناشتہ کرنی۔ دوکانداری میں لگنےکےبعد ناشتہ اور کھانےک فرصت کہاں مل پاتی ہی۔ ناشتہ سےوہ فارغ ہی نہیں ہوا تھا کہ رگھو نےآواز دی ۔اس نےدوکان کی چابیاں اسےدےکر دوکان کھولنےکےلیےکہا۔ اس کےبعد نہا دھو کر آدھےگھنٹےبعد نیچےاترا تو دوکانداری شروع ہوگئی تھی۔ رگھو اور راجو گاہکوں سےنپٹ رہےتھی۔ ”ست شری اکال سردارجی ۔“اچانک شناسا آواز سن کر وہ چونک پڑا۔”ارےجاوید بھائی آپ “ وہ حیرت سےجاوید کو دیکھنےلگا جس نےاسےآواز دی تھی.... کیا بات ہےآج آپ انسٹی ٹیوٹ نہیں گئی؟”انسٹی ٹیوٹ کی چھٹی ہےجمی ۔“ ”چھٹی ؟ کس خوشی میں ....“”ارےآج عید میلادالنبی ہی۔ حضرت محمد کی پیدائش ۔آج کےدن سارےگاو
¿ں کےمسلمان اپنا کاروبار بند رکھتےہیں۔ اور دھوم دھام سےجشن عید میلاالنبی مناتےہیں۔ مجلس منعقد ہوتی ہیں، جلوس نکالا جاتا ہی۔ پیر بابا کےمزار کےپاس کھانا بنایا جاتا ہی۔ جس کےلیےسارےگاو
¿ں کو عام دعوت ہوتی ہی۔ اس دعوت میں نہ صرف اس گاو
¿ں کےبلکہ آس پاس کےگاو
¿ں کےمسلمان اور غیر مسلم بھی شریک ہوتےہیں۔ حضرت محمد کی سیرت پر روشنی ڈالنےوالےجلوس کا انعقاد ہوتا ہی۔سارا گاو
¿ں روشنیوں سےسجایا جاتا ہی۔ تمہاری اس گاو
¿ں میں پہلی جشن عید میلاالنبی ہےنا اس لیےتمہیں اس کا علم نہیں ہے۔انسٹی ٹیوٹ تو بند ہی۔ سوچا گاڑی کی سروس کرلوں اور تمہیں جشن کا نظارہ دکھاو
¿ں۔“”اچھا آج عید میلاالنبی ہی۔ اس کےبارےمیں میں نےصرف سن رکھا ہی۔ پنجاب کےگاو
¿ں میں تو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا ۔ اب پنجاب کےدیہاتوں میں مسلمان کہاں ہیں۔ میں نےاپنےبزرگوں سےسن رکھا ہےتقسیم سےقبل جب مسلمان خاطر خواہ تعداد میں پنجاب کےدیہاتوں میں آباد تھی۔ اس وقت اس دن سارےپنجاب کےدیہاتوں میں جشن کا سماں ہوتا تھا۔ “ اس نےکہا۔ساتھ ہی ساتھ اس کےذہن میں گھنٹیاں بھی بجنےلگی۔ آج عید میلادالبنی کی کالج میں چھٹی ہوگی اس وجہ سےمدھو کالج نہیں گئی اور وہ سویرےسےاس کی راہ دیکھتا رہا۔ ”جاوید بھائی چائےمنگواو
¿ں ؟“اس نےجاوید سےپوچھا۔”سردارجی ....چائےچھوڑیے....میرےساتھ چلیےآج میں آپ کو اپنےگھر لےجا کر ناشتہ کراتا ہوں عید میلاالبنی کےسلسلےمیں گھروں میں نیاز کی جاتی ہی۔ میرےگھر کئی طرح کےپکوان بنےہیں۔ “جاوید نےجواب دیا۔ ”چلیے....گاڑی کو چھوڑ دیجیے۔جب تک ہم واپس آئیں گےگاڑی بن کرتیار ہوجائےگی۔“ اس نےکہا۔اور دونوں گاو
¿ں کی طرف چل دیی۔ سچ مچ سارےگاو
¿ں میں جشن کا سماں تھا ۔گاو
¿ں کےدرمیانی چوراہےسےمسلمانوں کا محلہ بہت دور تھا ۔لیکن چوراہےپر جو مسلمانوں کی دوکانیںتھیں وہ بند تھیں ۔لیکن سجی ہوئی تھیں ان پر روشنیاں تھی جو دن میں بھی جل رہی تھی۔ ہرےجھنڈےلگےتھی۔جن پر اردو اور گجراتی میں جشن عید میلادالبنی لکھا تھا۔ سبز رنگ کےپھلوارےپورےچوک میں لگےتھی۔ اب جگہ جگہ سےلاو
¿ڈ اسپیکر کی آوازیں بھی سنائی دینےلگی تھیں۔ لاو
¿ڈ اسپیکروں پر خوش الیان آوازوں میں نعت رسول پاک پڑھی جارہی تھیں۔ جگہ جگہ پیراو
¿ لگےتھی۔ جہاں پر آنا ہگیروں میں شربت تقسیم کیا جارہا تھا ۔گول بڑےجوش و خروش سےقطاروں میں کھڑےہوکر شربت پی رہےتھی۔ ٹھوڑی دیر بعد ایک بڑا جلوس دکھائی دیا ۔ یہ عید میلادالنبی کا جلوس تھا۔ اس جلوس میں گاو
¿ں کےتمام چھوٹےبڑےمسلمان مرد شریک تھی۔ بچےاپنےہاتھوں میں چھوٹی چھوٹی ہری جھنڈیاں تھامےہوئےتھے۔ کچھ لوگو نےہاتھوں میں بڑےبڑےجشن عید میلاالنبی کےجھنڈےاور بینر اٹھارکھےتھی۔ ایک دو جگہ جلوس کےساتھ میلاد پڑھی جارہی تھی۔ جلوس کی اگلی صف کےبچےجوش اور خوشی میں نعرےلگارہےتھی۔ ”نعرہ
¿ تکبیر “”اللہ اکبر“”نبی کا دامن “”نہیں چھوڑیں گی“”غوث کا دامن “”نہیں چھوڑیں گی“بچوں اور لوگوں نےہاتھوں میں خوشبودار چھوٹی بڑی اگر بتیاں پکڑ رکھی تھیں جس کی وجہ سےسارا ماحول مہکا ہوا تھا۔ لوگ اپنےمکانوں کی کھڑکیوں ، دروازوں ،گیلری میں کھڑےہوکر اس جلوس کو دیکھ رہےتھی۔دو پہر تک یہ جلوس سارےگاو
¿ں میں گھومتا رہےگا۔ دوپہر میں یہ جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچےگا جہاں پر کھانا پکا ہوگا اور سارےگاو
¿ں والےوہاں دوپہر کا کھانا کھاتےکےلیےجائیں گی۔ جاوید بتانےلگا۔وہ لوگ بھی جلوس میں شریک ہوگئےتھی۔”کیا اس کھانےمیں سارا گاو
¿ں شریک ہوتا ہی؟“”ہمارےبچےنہیں سارا گاو
¿ں شریک ہوتا تھا ۔لیکن گذشتہ چند سالوں سےاب وہ بات نہیں رہی ۔اب صرف چند لوگ ہی شریک ہوپاتےہیں۔ “جاوید نےجواب دیا۔ جلوس مسلم محلےسےگذرنےلگا تو وہ محلےکی بہ رائش دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔اس نےاس طرح کی سجاوٹ پنجاب میں صرف چندمخصوص موقعو ںپر دیکھی تھی۔ گاو
¿ں میں پچاس ساٹھ مسلم گھر ہوں گی۔ وہ تمام ایک محلےمیں ہی تھی۔ مسلمانوں کی آبادی پانچ چھ سےکےقریب ہوگی۔ لیکن گاو
¿ں پر مسلمانوں کا دبدبہ تھا۔ اس طور پر تھا کہ گاو
¿ں کےتمام اہم کاروبار میں مسلمان شریک تھی۔ جاوید کےانسٹی ٹیوٹ کو ہی لیا جائےتو وہ گاو
¿ں کی ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھتا تھا۔ جہاں سےعلم ،ہنر کی روشنی پھوٹتی تھی۔ مسلمانوں کےکھیت بھی تھی۔ تیل کی گھانیاں بھی تھیں۔ چھوٹےموٹےکاروبار بھی تھی۔ غریب مسلمان بھی تھی۔ جو کھیتوں میں مزدوری کرتےتھےیا پھر دوکانوں ،کاروباروں میں کام کرتےتھی۔ کچھ گھر میں بہت زیادہ آسودگی تھی توکچھ گھروں میں انتہا غریبی ۔ایک مسجد بھی جس میں پانچ وقت کی نماز پڑھی جاتی تھی۔ اس میںایک مدرسہ تھا جس میں بچوں کو دین کی تعلیم دی جاتی تھی۔ ایک اسکول تھا جہاں بچےتعلیم حاصل کرتےتھی۔ لیکن اس اسکول میں صرف پرائمری درجےکی ہی تعلیم دی جاتی تھی۔ ہائی اسکول کی تعلیم اس اسکول سےفارغ ہوکر بچےگاو
¿ں کےہائی اسکول میں ہی حاصل کرتےتھی۔ تعلیم کےمعاملےمیں گاو
¿ں میں اتنی روشن خیالی نہیں تھی ۔جاوید جیسےنوجوان تھےجو تعلیم کےمیدان میں کافی دور تک گئےتھی۔ ورنہ بچےابتدائی یا ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرنےکےبعد ماں باپ کےکاروبار یا دھندوں میں لگ کر پیسہ کمانےلگتےتھی۔ پیسہ ایک اہم شہ تھی۔ہر کسی کو پیسے،دھن دولت کےمعیار پر ہی تو لا جاتا تھا۔ جاوید نےاسےاپنےگھر لےجاکر اسےناشتہ کرایا ۔ناشتہ میں میٹھا اور طرح طرح کی مٹھائیاں تھیں۔ وہ جاوید کےگھر والوں سےملا ۔جاوید کےگھر والےاس سےمل کر بہت خوش ہوئی۔ان کےخلوص اور اپنائیت کو دیکھ کر اسےمحسوس ہوا وہ گجرات کےایک گاو
¿ں نوٹیا میں نہیں ہی۔ پنجاب کےاپنےگاو
¿ں میں ہی ہی۔ ناشتہ کرکےوہ دوبارہ جلوس میں شریک ہوگئی۔ جلوس گاو
¿ں کی گلیوں سےگذرہا تھا۔ ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رہ گیا ۔ایک سہ منزلہ عمارت کی گیلری میں مدھو کھڑی جلوس کو دیکھ رہی تھی۔ مدھو کو دیکھ اس کا دل دھڑک اٹھا۔ تو یہ مدھو کا گھر ہی۔ مکان پر گجراتی میں کچھ لکھا تھا وہ پڑھ نہیں سکا ۔ٹکٹکی باندھےمدھو کو دیکھتا رہا۔ جلوس قریب آیا تو اس نےمدھو کےہونٹوں پر ایک مسکراہٹ دیکھی۔ اس مسکراہٹ سےاس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئی۔ اسےلگا مدھو اسےدکھ کر مسکرارہی ہی۔ دوسرےہی لمحےہی میں وہ چونک پڑا۔ جاوید بھی مدھو کو دیکھ کر مسکرارہا تھا۔ جاوید نےمسکراکر مدھو کو ہاتھ بتایا تو جواب میں مدھو نےبھی ہاتھ ہلا کر جاوید کو جواب دیا۔ وہ ہکا بکا دونوں کو دیکھتا رہا۔ کچھ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ پر ایک خیال بجلی کی طرح اس کےذہن میں کوندا اور اس کی آنکھوں کےسامنےاندھیرا سا چھانےلگا۔ ”کون ہےوہ “ اس نےاپنےہونٹوں کو ترکرکےحلق سےتھوک کو نگلا اور جاوید سےپوچھا۔ ”مدھو اس کا نام ہی۔“ جاوید بولا۔”٠١ ویں تک ہم ساتھ ساتھ پڑھےہیں۔ میرےسائبر میں باقاعدگی سےآتی ہی۔ کالج پڑھنےکےلیےشہر جاتی ہی۔“”اور ....“”اور کیا ؟ “جاوید اس کامنہ دیکھنےلگا ۔”سردارجی یہ چہرےکا رنگ کیوں بدل گیا ہی۔ کیا دل کا معاملہ ہی؟“”دل.... ہاں.... نہیں نہیں ....“ وہ بوکھلا گیا۔ ” تو پنجاب کا دل گجرات پر آگیا۔ “ جاوید اسےچھیڑنےلگا ۔”دراصل مدھو چیز ہی ایسی ہی۔ آپ کا دل آگیا ہےتو کوئی بری بات نہیں ہی.... لگے....رہی۔منزل خود بہ خود آسان ہوجائےگی۔“جلوس آگےبڑھتا گیا۔ وہ باربار مڑکر مدھوکو اس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سےاوجھل نہ ہوگئی ۔اسےاس بات کی خوشی تھی جلوس میں شریک ہونےکےبہانےاس نےمدھو کا گھر دیکھ لیا ہی۔ جاوید مدھو کو جانتا ہےیہ اور بھی اچھی بات تھی۔ اب تو جاوید سےمدھو کےبارےمیں ساری معلومات مل سکتی ہی۔ اور پھر اس نےتاڑ بھی لیا ہی۔کہ اس کا اور مدھو کا دل کا معاملہ ہی۔ اب معاملہ آگےبڑھےتو جاوید اس میں ساتھ دےسکتا ہی۔ جلوس پیر بابا کی درگاہ پر پہنچ گیا ندی کےکنارےایک بڑےسےمیدان میں بنی ایک درگاہ تھی۔ درگاہ کےچاروں طرف آم اور برگد کےبڑےبڑےدرخت تھےاور آس پاس کھیتوں کےسلسلے۔ درگاہ کےقریب ایک بڑا سا کنواں تھا۔ اور درگاہ سےلگ کر ایک چھوٹا سا مکان بھی تھا۔ درختوں کےسایےمیں جگہ جگہ دیگیں چھڑی ہوئی تھی جن میں کھانا پک رہا تھا۔ کچھ دیگوں میں کھانا تیار ہوگیا تھا۔ جلوس میں شریک لوگ میدان میں بیٹھ گئی۔ لاو
¿ڈ اسپیکر سےباربار اعلان ہورہا تھا کہ لوگ جلد از جلد قطار میں بیٹھ جائیں کھانا شروع ہورہا ہی۔ وہ اور جاوید ایک پیڑ کےنیچےبیٹھ گئی۔ کھانےکی تقسیم شروع ہوگئی ۔جرمن کی رکابیوں میں کھانا ان کےسامنےآیا۔ کھانا میٹھا چاول تھا۔ چاول اور گڑ سےبنایا ہوا میٹھا چاول ۔ جاوید وہاں بیٹھنےسےقبل قریب لگی دوکانوں سےآم کا اچار ۔پاپڑ اور پکوڑےلےآیا تھا۔ ایک نظر میں اسےیہ کھانا بڑا عجیب لگا اس نےآج تک اس قسم کا کھانا نہیں کھایا تھا۔”کھائیےسردار جی ....یہ کھانا سال میں صرف ایک بار پکتا ہی۔“جاوید نےاسےٹوکا تو اس نےکھانا شروع کیا۔ ایک دو نوالےحلق سےنیچےاترنےکےبعد اسےمحسوس ہوا کھانا تو بڑا لذیذ ہی۔ اسےپکوڑوں ،چنےکی چٹنی اور آم کا اچار کےساتھ کھایا جائےتو اس کی لذت دوبالا ہوجاتی ہی۔پلیٹ میں کا کھانا ختم ہونےسےقبل کھانا تقسیم کرنےوالےپلیٹ میں کھانےکا ڈھیر لگا دیتےتھی۔ ڈھیر دیکھ کر اسےمحسوس ہوتا تھا کہ بہت کھانا ہےختم نہیں ہوگا ۔لیکن دیکھتےہی دیکھتےوہ پیٹ میں پہنچ جاتا تھا۔ اس نےبھوک سےزیادہ کھالیا تھا۔ کھانا کھاکر اس نےدرگاہ کےکنویں سےپانی پیا۔ لوگ کھانا کھانےکےلیےخوق در جوق آرہےتھی۔ تھوڑی دیر کےبعد عورتیں بھی کھانا کھانےکےلیےآنےلگیں ۔ عورتوں کا دوسری جگہ انتظام کیاگیاتھا۔ ”یہ کھانےکا سلسلہ شام چار بجےتک چلتا رہےگا۔“ جاوید کہنےلگا۔”اس میں آس پاس کےگاو
¿ں سےبھی لوگ شریک ہوں گی۔ “کھانا کھا کر وہ ندی کنارےچلتےچلتےواپس آگئے۔ندی میں برائےنام پانی تھا۔واپس دوکان پر آکر اس نےرگھو اور راجو کو بھی کھانےکی چھٹی دےدی۔وہ لوگ بھی کھانا کھانےکےلیےپیر بابا کی درگاہ پر جانےوالےتھی۔ ان کےجانےکےبعد وہ دوکان میں اکیلا رہ گیا۔ لیکن دوکان میں کوئی کام بھی نہیں تھا۔اس کےدل میں آیا دوکان بند کرکےسوجائے۔کوئی گاہک تو آنےسےرہا۔ عید میلاد النبی کی وجہ سےشاید گاہکوں نےسمجھ لیاتھا اس کی بھی دوکان بند رہےگی یا پھر انھیں اس کی دوکان کےسامان کی ضرورت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ وہ کرسی پر بیٹھ کر اونگھنےلگا ۔اور پھر کاو
¿نٹر پر سر رکھ سوگیا۔ ایک دوبار چونک کراس کی آنکھ کھلی ۔اسےلگا جیسےکوئی آیا ہی۔ لیکن اس نےجب دیکھا سامنےسڑک پر دوردور تک سناٹا ہےتو وہ پھر دوبارہ کاو
¿نٹر پر سر رکھ کر سوگیا۔راجو اور رگھو دو گھنٹےکےبعد آئی۔ ان کےآنےتک اس نےایک اچھی خاصی جھپکی لےلی تھی۔ شام پانچ بجےکےقریب خبر آئی کہ چوراہےپر کچھ گڑبڑ ہوئی ہی۔ تفصیلات معلوم کرنےپر پتہ چلا کہ سویرےسےہی چوراہےپر کچھ لوگوں نےبورڈ لگائےتھےکےپیر بابا کی درگاہ پر جشن عید میلا النبی کےسلسلےمیں ہونےوالےکھانےمیں ہندو شریک نہ ہوں۔یہ دھرم کےخلاف ہے۔ملچھ لوگوں کا کھاناکھانا اپنا دھرم بھرشٹ کرنا ہی۔ اس کےباوجود لوگ کھانا کھانےکےلیےجانےلگےتو انھوں نےانھیں جانےسےروکنےکی کوشش کی۔ کسی کےساتھ معاملہ تکرار سےبڑھ کر جھگڑےتک پہنچ گیا تو کچھ لوگ دباو
¿ میں آکر سہم کر ان کی بات مان کر واپس اپنےگھروں کو لوٹ گئی۔ ایک بارتکرار اتنی بڑی کےمعاملہ ہاتھاپائی تک پہنچ گیا۔ اس کےبعد روکنےوالوں نےچوراہےپر لگی جھنڈیاں نکال کر آگ میں جلانی شروع کردی ۔سجاوٹ اور آرائش کو نقصان پہنچانےلگی۔ مسلمانوں کی بند دکانوں پر پتھراو
¿ کرنےلگی۔جب مسلمانوں کو معلوم ہوا تو وہ بھی ایک جگہ جمع ہوگئی۔اس پر وہ لوگ ان مسلمانوں پر پتھراو
¿ کرنےلگی۔جواب میں مسلمان بھی پتھراو
¿ کرنےلگے۔جس سےمعاملہ اور بڑھ گیا۔ پتھراو
¿ میں دونوں جانب کچھ اور لوگ شامل ہوگئے۔اس سےقبل کےمعاملہ سنگین صورتِ حال اختیار کرے، گاو
¿ں کےکچھ بڑےلوگوں نےدونوں گروہوں کو سمجھا کر معاملہ رفع دفع کردیا۔ اور دونوں کو اپنےاپنےگھروں کو بھیج دیا۔زندگی پھر سےمعمول پر آگئی۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477






 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Part 2 and Powered by Blogger.